تمہارے خط کا متن دیر تک ہم سوچتے رہے

Poet: UA By: UA, Lahore

تمہارے خط کا متن دیر تک ہم سوچتے رہے
شام سے رات اور پھر سحر تک ہم سوچتے رہے

یہ نامہ میرے نام ہے یا کسی اور کہ لئے
روپہلی دھوپ سے دھندلی کہر تک ہم سوچتے رہے

جو اپنے ساتھ دو قدم ملا کر بھی نہیں چلا
وہ اپنا ہمسفر۔؟ حد سفر تک ہم سوچتے رہے

ہر ایک پہلو کو پہلو بدل کر سوچتے رہے
ذرا سی بات کو حد نظر تک سوچتے رہے

جو اپنے دل سے پوچھا عظمٰی حیرت میں غرق پایا
کہ اپنی سوچ کے حتمی اثر تک ہم سوچتے رہے

Rate it:
Views: 536
17 Nov, 2011