ہم تمہارے لئے ہر غم بھلائے بیٹھے ہیں
تمہیں اپنانے کی قسمیں اٹھائے بیٹھے ہیں
تم نے ہمیں ہماری وفا کو بھلا دیا مگر
ہم تمہارا نام لبوں پر سجائے بیٹھے ہیں
آکر میری تنہائیوں کب بزم سجا دو
ہم انتظار کی شمع جلائے بیٹھے ہیں
پاس دنیا داری ہے جو ہم تم سے دور رہے
لیکن ہم تم کو آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں
تم کسی طرح بھی ہم سے دور نہیں جا سکتے
ہم تمہیں روح میں دل میں بسائے بیٹھے ہیں
اپنی ہر دعا میں ہم تم کو یاد رکھتے ہیں
تمہارے واسطے دامن پھیلائے بیٹھے ہیں
عظمی میرا وجود مجھ سے یوں اوجھل ہوا
تیرے خیال میں خود کو چھپائے بیٹھے ہیں