سوکھے پیڑوں سے وعدہ کر کےہوا کے پیچھے جاؤ گی
بچھڑ چکے جو پتے ان کو کیسے ڈھونڈ کے لاؤ گی
سوجی آنکھوں کے بارے میں گھر لو فرضی افسانہ
ملنے والوں کو تم کیسے سچی بات بتاؤ گی
دنیا والوں سے ملنے کی خواہش ٹھیک سہی لیکن
عشق کا چلہ کاٹ رہی ہو باہر کیسے آؤ گی
دل میں آنگن میں اب تک اک پیڑ کھڑا ہے یادوں کا
وقت کی آندھی ہار چکی ہے تم کیا اسے گراؤ گی
کہنے کو تو روٹھ گئی ہو اس سے لیکن یاد رہے
آج بھی دیر سے وہ لوٹے گا آج بھی تمہی مناؤ گی
ایک مہینے بعد ملا تو نام بھی وہ میرا بھول گیا
جس نے چلتے وقت کہا تھا “ یاد بہت تم آؤ گی“