تم تلک پہنچنے کے لیے نا ہموار رستوں سے گزرنا ہے
ہم کو سہنا ہے کیا کیا جانے کن کن نظروں سے گزرنا ہے
تم تو آس لگاۓ لبِ دریا ہی سکون سے پیاسے بیٹھے ہو
ہم کو تو ابھی تن تنہا ہی اک لمبے سفر سے گزرنا ہے
پرامید تھے ہم بھی مکر اب نا امیدی کے چراغ بھی جل رہے ہیں
ان چراغوں کو بھی ہوا کے رخ سے ہم کو ہی بچا کے رکھنا ہے
اک عجب وسوسہ ہے اس دل میں کہیں اپنے ہی چراغوں سے
بھڑک نہ جاۓ آگ اپنے ہی گھر میں ہم کو یہ بھی خیال رکھنا ہے