کل رات کھڑکی سے جو کمرے میں ہوا آئی
خاموشیوں میں یوں لگا تیری صدا آئی
تقدیر کے مارے بڑی مشکل سے ہنستے ہیں
خود اپنی حالت پہ ہنسی آئی تو کیا آئی
مانا کہ غصے پہ نہیں رہتا مجھے قابو
تم کو بھی کب مجھ کو منانے کی ادا آئی
ایسا جنم چاہیں گے نہ دنیا میں دوبارہ
ہم سے اگر یہ پوچھنے اک دن قضا آئی
اب تجھ سے مانگوں بھی تو کیا اتنا ہی کافی ہے
لب پہ ترے میرے لیے دل سے دعا آئی
سچی محبت مفلسوں کا کام ہے زاہد
دنیا میں دھن والوں کو نہ کرنی وفا آئی