تنِ خاکی میں روح قید ہو کے رہ گئی ہے
بدن میں جان جیسے قید ہو کے رہ گئی ہے
فشارِ خوں کبھی آہستہ کبھی تیز تر ہے
زندگی دھڑکنوں میں قید ہو کے رہ گئی ہے
مقفس باز کی طرح پروں کو پھڑپھڑاتی ہے
فضائی روح حدوں میں قید ہو کے رہ گئی ہے
حقیقی آئینے میں خود کو دیکھا تو نظر آیا
شبیہ اِس آئینے میں قید ہو کے رہ گئی ہے
حصارِ حدت ِ جنوں تیرے طفیل یہ عظمٰی
آتشی دائرے میں قید ہو کے رہ گئی ہے