مجھ کو تنہا چھوڑ کے اب کہیں جانا نہیں
تم کو تنہا ڈھونڈنےجاتے پھریں ہم گے کہاں
تیری آنکھیں تیرا چہرہ تیری باتیں یاد ہیں
آئینے کے سامنے ہم نہیں تو ہے عیاں
تم بھی تو کبھی ہم سے اقرار وفا کرتے
ہم جو سوال کرتے تم ہم سے کہتے ہاں
بکھرے ہوئے لوگوں کو نہ حقیر جانیے
بکھرے ہوئے تنکوں سے بنتا ہے آشیاں
ہم تیری جستجو میں اپنے آپ سے بچھڑ گئے
کچھ اسطرح کے مجھکو بھی ملتا نہیں میرا نشاں
تیرے شہر کی گلیاں بھول بھلیوں جیسی ہیں
ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکا مجھکو میرا نشاں
وہ دیکھو چاند بادلوں کے ساتھ یوں چلے
جیسے وہ ماہ رو چلے ہمراہ رقیباں
ہم نے تو بہت چاہا خود کو سمیٹنا
لیکن وجود خستہ بکھرا کہاں کہاں
عظمٰی تمہارے خوابوں کی تعبیر کیا ہوئی
کیا اب بھی قائم ہے وہی خوابوں کا آشیاں