اس سے وصال کے جو نہیں ہیں آثار تک
میرے دکھوں کا ہو نہ سکے گا شمار تک
شاید جدا نہ ہوتے کبھی زندگی میں ہم
تو نے کیا نہیں تھا مرا انتظار تک
نظریں ہٹیں نہ تجھ سے بڑی دور تک مری
لیکن تھا اختیار بھی ان کو غبار تک
اس کو تو پیار میں بھی رہا جیتنے کا شوق
تسکین اس کی ہو نہ سکی میری ہار تک
مشکل ہے مشکلات کو سہنا اے میرے دل
اب بے قرار رہنا پڑے گا قرا ر تک
ہر چیز میں فریب ہے ، ہر سو منافقت
مزہب و کاروبار و سیاست سے پیار تک
کاغذ کے پھول لے کے چمن کو سجائین آج
شاید کہ جی نہ پائیں زاہد بہار تک