تو چیخ ہونٹوں کو سینے سے فائدہ کیا ہے
جہاں میں گھٹ کے یوں جینے سے فائدہ کیا ہے
اتر کے دل میں لگا دیں گے آ گ دوزخ کی
بہا دے اشکوں کو پینے سے فائدہ کیا ہے
بدل سکے جو مشقت کبھی نہ تیرے حالات
تو پھر جبیں پہ پسینے سے فائدہ کیا ہے
نکال کر تو جسے اپنے کام لا نہ سکے
زمیں کے ایسے دفینے سے فائدہ کیا ہے
سکون چھین کے راتوں کی نیند کو لوٹے
تجوریوں میں خزینے سے فائدہ کیا ہے
ہے خود سہارے کا محتاج اس سے کیا امید
بھنور میں ٹوٹے سفینے سے فائدہ کیا ہے
پہن نہ ہاتھ میں بدلے گا نہ یہ تیرا نصیب
ہاں کام کر کہ نگینے سے فائدہ کیا ہے
کشادہ دل کو ہی ملتی ہیں راحتیں زاہد
چھپا نہ سینے میں کینے سے فائدہ کیا ہے