عنبرین حسیب کے اشعار میں "تُم بھی نہ " کی تکرار سے متائثر چند اشعار
تُم بھی ناں !
کتنا میٹھا بول رہے ہو تُم بھی نہ
اپنا بولا تول رہے ہو تُم بھی نہ
چہرہ دکھا کر مجھ کو تو خاموش کیا
نہ جانے کیا بول رہے ہو تم بھی نہ
آنکھوں میں تیری اُلجھا اور سُلجھا ہوں
زُلفیں اپنی کھول رہے ہو تم بھی نہ
ساکت کر کے رکھا ہے دیدار میں اپنے
اِدھر اُدھر تم ڈول رہے ہو تم بھی نہ
ترنم ہے لہجے میں تمہارے بِن گاۓ
کانوں میں رس گھول رہے ہو تم بھی نہ
اتنے غور سے دیکھ رہے ہو کیا ہو گا
مُجھ میں کیا ٹٹول رہے ہو تم بھی نہ
عام ڈگر پر کیوں چلتے ہو تم نعمان
تم تو کبھی انمول رہے ہو تُم بھی نہ