تھا خاص سارے جہاں میں کہیں بھی عام نہ تھا
جو درد مجھ کو ملا اس کا کوئی نام نہ تھا
کسی کی یاد میں سڑکوں پہ گھومنا شب بھر
مجھے تو اس کے سوا اور کوئی کام نہ تھا
مرے پہنچتے ہی میخانہ ہو گیا خالی
کیا دل بہلتا کہ باقی تو ایک جام نہ تھا
ہوا کی طرح مسافر رہے ہیں دنیا میں
سفر نصیب تھا اپنا کہیں قیام نہ تھا
میں اس کی میل کو پڑھ کے بھی بےسکون رہا
بہت سے شکوے لکھے تھے پر اک سلام نہ تھا
وہ مجھ کو دل میں سدا ہی برا سمجھتا رہا
مرے خلوص میں گرچہ کوئی کلام نہ تھا
میں در بدر و بڑا بے سکون ہوں لیکن
مجھے تو اپنے بھی گھر میں ملا آرام نہ تھا
جو دل سے نکلے وہی شعر آج زندہ ہیں
کہے جو کہنے کی خاطر انھیں دوام نہ تھا
مرا شریک سفر ہو کے بھی سدا اس نے
دیا جو دل میں مجھے وہ مرا مقام نہ تھا
امیر ہوتے بھی کیسے کہ شاعری زاہد
ہنر تھا پاس مگر اس کا کوئی دام نہ تھا