نہ آئے اگرچے نظر میں بہت
تھے آنسو مری چشم تر میں بہت
تھا مطلب ترے نقش پا سے فقط
“ نشاں یوں تو تھے رہگزر میں بہت
مجھے بھا گئی بس تری سادگی
حسیں ورنہ آئے نظر میں بہت
ہو گر بارگاہ خدا میں قبول
تو اک سجدہ ہے عمر بھر میں بہت
عزائم کے بل پر اڑانیں بھریں
نہ تھا گرچہ دم بال و پر میں بہت
نہیں دور تک ساتھ چل سکے ہم
انا تھی مرے ہمسفر میں بہت
وہ اشک ندامت نہ ہلکا پڑا
اسے تولا لعل و گہر میں بہت
پھر آنگن میں دیوار اٹھ جائے گی
کہ اب کینہ سازی ہے گھر میں بہت
سفر عا شقی کا مبارک ‘ حسن ‘
ہیں پر خار اس رہ گزر میں بہت