سنو تو اے حریم جاں
کوئی نہیں رہا یہاں
جو درد دل عطا کرے
جہاں سے ماورا کرے
یہ کھوکھلا ہجوم ہے
یہاں کسی کو کیا خبر
کہ وحشتوں کے جال میں
یہ زندگی الجھ گئی
کوئی چراغ بجھ گیا
کوئی زمین جل گئی
یہ روز و شب کی کشمکش
خود ایک کشمکش میں ہے
کہ اس جہان شوق میں
عداوتوں کے ذوق میں
محبتوں کی روک میں
بھلا ملا تو کیا ملا
ہم ایسے دل نشیں فقط
پڑے ہیں انتظار میں
کہ زندگی عطا کرے
وہ درد دل پھر اک دفعہ
جو وصل یار سے ملے
گل بہار سے ملے
جو درد خود دوا بھی ہو
علاج ماسوا بھی ہو
دکھوں کی ابتدا بھی ہو
خوشی کی انتہا بھی ہو
مگر وہ درد اب کہاں
یہ کھوکھلا ہجوم ہے
تیرا جنون دل ہے اور
فضائے سرد خالدی
کہ اب تو بزم دل سے بھی
اٹھی ہے گرد خالدی
تیرا وہ درد خالدی
تیرا وہ درد خالدی