تیری خاطر اک اشارا رکھ دیا
دل جلایا اور دوبارا رکھ دیا
آپ کا جو بھی تھا انعام و کرم
ہم نے چوراہے پہ سارا رکھ دیا
ڈوب جانے کو تھا میں دریا کے بیچ
لا کے موجوں نے کنارا رکھ دیا
اِس طرح اُس نے الگ مجھکو کیا
بوجھ تھا جیسے اُتارا رکھ دیا
جانے خوشبو آئی تھی ملنے کِسے
نام لوگوں نے ہمارا رکھ دیا
سر پٹکنا کرب کا اِظہار ہے
کس نے لہروں پر شرارا رکھ دیا
میں نے پھر کھل کر کہا سب کچھ نبیل
اِک کنارے استعارہ رکھ دی