تیری پرکار، دائرے سارے
پیچ و خم دار زاویے سارے
پاؤں رکھنے کی سوچ آتے ہی
پھوٹ پڑتے ہیں آبلے سارے
خوف ہے اِس قدر تمازت کا
ماں نے بچے چھپا لئے سارے
تیری یادوں کا تھا کوئی نشتر
زخم جس نے جگا دیے سارے
تیرگی جشن ہی منا لیتی
گر نہ جلتے یہ قمقمے سارے
پھول کو خار سے ڈراؤ مت
اس نے دیکھے ہیں مرحلے سارے
صورتیں عکس کے منافی ہیں
بے خبر کیوں ہیں آئینے سارے؟
چاک ہے پیرہن گلِ تر کا
ہو گئے ختم فاصلے سارے