جاتے جاتے آنسووں کے سیلاب دے گیا
کوئی محبت کے ہم کو ایسے باب دے گیا
اپنے لوٹ آنے کا کہہ کر ہمیں
آنکھوں کو کیسے کیسے خواب دے گیا
خود تو چل دیا اپنے رت جگوں میں
جدائی کے ہم کو کیسے عذاب دے گیا
واجد پوچھا نہیں پلٹ کر اس نے حال بھی ہمارا
جو شخص ہمیں رسوائیوں کے سحاب دے گیا