جام نا آشنا رہا ہوں میں
تشنہ تشنہ سدا رہا ہوں میں
یوں تو بس عام سا رہا ہوں میں
سب سے لیکن جدا رہا ہوں میں
جو کسی در پہ بھی سنا نہ گیا
ایسا حرف دعا رہا ہوں میں
یوں تو کچھ زعم پارسائ نہیں
ہاں مگر پار سا رہا ہوں میں
عمر بھر امتحان لیتی رہی
زندگی سے خفا رہا ہوں میں
پہلے اک شئے وفا بھی ہوتی تھی
جو سنا ہے بتا رہا ہوں میں
آزمایا ہے اس نے خوب مجھے
اب اسے آزما رہا ہوں میں
بیٹھ کر مجھ کو گھٹوں تکتے تھے
آپ کا آئینہ رہا ہوں میں
باعث درد دل ہوں آج ۔ کبھی
درد دل کی دوا رہا ہوں میں
وقت نے پھر بنا د یا پتھر
صد یوں تک دیو تا رہا ہوں میں
وقت کی دھول صاف کر کے حسن
ان کو شیشہ دکھا رہا ہوں میں