ایک ہی بار میں دے دو مجھے خنجر والے
اب سہے جاتے نہیں زخم یہ نشتر والے
ہر کسی کے لئے وا دامن توحید نہیں
اس کی آ غوش میں آتے ہیں مقدر والے
تشنگی کے بھی مراحل ہیں۔ گزرنا ہو گا
جام پاتے نہیں سب ساقئ کوثر وا لے
چھوڑ کر اپنے سفینوں کو پریشاں ہو کر
آ رہے ہیں مری کشتی میں سمندر والے
نیند میں ہیں۔ انھیں غفلت میں پڑا رہنے دو
جاگ جائیں نہ کہیں خاک کے بستر والے
فکر طوفاں۔ نہ ہمیں خوف ہے قزاقوں کا
کشتی غرقاب نہ کر دیں کہیں اندر وا لے