چرخ بھی چھو لیں تہ جانا ہے اسی مٹی میں
مستقل اپنا ٹھکانا ہے اسی مٹی میں
جن کے دامن پہ کبھی چاند ستارے چمکے
دفن ان کا بھی فسانہ ہے اسی مٹی میں
اس طرح چل کہ یہ پامال نہ ہونے پائے
آخرش آب ہے دانہ ہے اسی مٹی میں
بے عمل ہاتھ لگائے بھی تو خالی جائے
ہاں جفاکش کا خزانہ ہے اسی مٹی میں
تیری جنت کی ہوس کون کرے ہے ناصح
عشرتِ روزو شبانہ ہے اسی مٹی میں
لوگ کل کہ کے تجھے یاد کریں گے اخلاق
شاعرِ فخرِ زمانہ ہے اسی مٹی میں