جانے کیسے کوئی مجھکو اتنا پیرا ہو گیا
ہم اسی کے ہو گئے وہ بس ہمارا ہوگیا
موج کو ساحل کا جیسے ایک اشارہ ہو گیا
جس جگہ پہ جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گیا
آمد معشوق کی آہٹ میں اتنا جوش تھا
بس نظر ٹکرائی اور سب وارا نیارا ہو گیا
منتظر جنکی نگاہیں تھی وہ اے دم بہ لب
ڈوبتی سانسوں کو تنکے کا سہارا ہو گیا
روشنی کو چاند بھی سورج بھی تھا دونو مگر
آپ کے آنے سے روشن یہ نظارہ ہو گیا
سینکڑوں تارے لئے چند تنہائی میں تھا
نور روخ یار کا یہ استیارا ہو گیا
پیش خدمت دل رکھا تھا ہم نے انکی راہ میں
بے وفا نے ایسا کچلا پارہ پارہ ہو گیا
کھا کے ٹھوکر عشق میں قسمیں تو کھائی تھی مگر
ایک نگہاہ حسن سے یہ پھر دوبارہ ہو گیا
بے وفائی کا ستم اس نے کیا اس شان سے
مسکراہٹ پر خدا حافظ گوارا ہو گیا
عشق کی حد میں ہو اے عاشقی کے کھیل میں
درد دل سے رابطہ اصغر تمہارا ہو گیا