مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دین و دولت قمار بازی
ناپید ہے بندۂ عمل مست
باقی ہے فقط نفس درازی
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان بے نیازی
کنجشک و حمام کے لیے موت
ہے اس کا مقام شاہبازی
روشن اس سے خرد کی آنکھیں
بے سرمۂ بو علی و رازی
حاصل اس کا شکوہ محمود
فطرت میں اگر نہ ہو ایازی
تیری دنیا کا یہ سرافیل
رکھتا نہیں ذوق نے نوازی
ہے اس کی نگاہ عالم آشوب
درپردہ تمام کار سازی
یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری‘‘