جاگ اٹھا ہے اندھیراخاموشی مچی طوفاں میں
پانی بھی جل رہا ہے آگ لگی دریاؤں میں
تارے جو سو رہے ہیں سورج بھی حیراں ہے
سو گیا ہے اب سویرا چاہتوں کے ہیجاں میں
رک جو گئی ہیں سانسیں دھڑکن بھی پریشاں ہے
چلتے چلتے نوحہ کرتے ہم تم ملے آسماں میں
بھیگ رہی ہے بارش صحرا بھی سوکھ رہا ہے
تھام لو نا یہ بانہیں ہجوم کے درمیاں میں
گھٹ رہی تھیں سانسیں مل گیا ہے سفینہ
مل گئ ہے روح کو روشنی بدن کے زنداں میں