کچھ کام الفتوں کے اسیران کر چلے
جاں سر زمین پاک پہ قربان کر چلے
مانا چمن کو دے نہ سکے ہم بہار نو
لیکن گلوں کی زیست کا سامان کر چلے
یہ اور بات کم نہ ہوئے فاصلے مگر
منزل کے راستوں کو تو آسان کر چلے
ناکردہ جرم اور سزا دار و رسن کی
مصلوب منصفوں کو پشیمان کر چلے
تیرے بدن کو ریشم و اطلس تو مل گیا
غم کیا جو اپنا چاک گریبان کر چلے
مرجھا چکا تھا زیست کے صحرا میں جو کبھی
تازہ دلوں میں پھر وہی ایمان کر چلے
جو کام آسماں پہ فرشتے نہ کر سکے
وہ کام اس زمین پہ انسان کر چلے