جب درد اس دل میں بس جائے
وجہ بھی یاد نہ ہو پائے
اور جب بیتاب ہو آنکھیں
کہ رو لے پر نہ روپائے
اور پھر جب ہجر کی راتیں
مسلسل آئے اور جائے
اور آنکھیں سرخ رہ جائے
فسانے جو پرانی ہو
وہ پھر سے یوں آئے
کہ سانسوں کی
تسلسل ٹوٹ جائے اور
سپنے یوں ان آنکھوں سے
اچانک روٹھ جائے اور
بھری تاروں کی محفل میں
تاریکی ساتھ مل جائے
تنہائی رگ میں رچ جائے
خموشی لب پہ چھا جائے
اس دل کی چیخ
کہیں لفظوں میں دب جائے
روانی تھم سی جائے اور
سمندر خشک ہوجائے
پھر آنکھوں سے اچانک
بوندآنسو کی
ٹپک کر جب نکل جائے
سمجھ لینا سفر کے دوست
تمہیں لاحق بیماری ہے
کہ جس کو عام لفظوں میں
محبت لوگ کہتے ہیں