جب زمانے کا چلن ہم پہ عیاں ہونے لگا
دوستوں پر بھی رقیبوں کا گماں ہونے لگا
کون سچ بولے کہ مقتل ہیں ، صلیبیں ہیں یہاں
جس نے سچ بولا وہ عبرت کا نشاں ہونے لگا
پھر وہی شعلہ ء دہشت ، ہے وہی ڈر کی ہوا
پھر لگی آگ ہر اک سمت دھواں ہونے لگا
باپ نے بیٹے کو پالا ہے بڑے نازوں سے
فکر مند رہتا ہے جب سے وہ جواں ہونے لگا
انتخابات کی باتیں ہیں خدا خیر کرے
مرگ فردا کا کوئی جشن یہاں ہونے لگا
ہو کسے آس بھلا موت سے بچ جانے کی
اب مسیحا نہ رہا دشمن جاں ہونے لگا