جب سے تری الفت میں گرفتار ہوا ہوں
میں لوگوں کی نظروں میں گنہگار ہوا ہوں
ہر شخص کی تنقید میں شامل ہے مرا نام
یاروں میں بھی رُسوا سرِبازار ہوا ہوں
کیوں مجھکو غم و درد و مصائب نےہےگھیرا
جاناں میں ترا جب سے طلبگار ہوا ہوں
کیوں روز مجھے ہجر جلاتا ہے صبح شام
میں حُسن پہ عاشق تو بس اک بار ہوا ہوں
میں کیسے کسی فن میں مقام اپنا بناتا
مفلس تھا ہمیشہ پسِ دیوار ہوا ہوں
یہ فخر تو حاصل ہے کے ہر ظلم کے آگے
میں سیسہ پِلائی ہوئی دیوار ہوا ہوں
جب بھی کسی ظالم سے ہوا سامنا باقرؔ
مظلوم کے ہاتھوں کی میں تلوار ہوا ہوں