جس طرح سے بھی گزری گزر گئی
یہ عمر اب تک کی یاروں گزر گئی
ہم گزرے دھوپ چھاوں سے بھی
کٹھن اور مشکل راہوں سے بھی
رویہ دیکھا اپنوں اور غیروں کا
نفرت اور محبت کی تھپیڑوں کا
کہیں اپنوں نے یاروں منہ موڑا
تو کہیں غیروں نے دیا سنھبالا
پھر بھی یہ سب کی مہربانی ہے
سکھایا ہمیں یہ ہی زندگانی ہے
اس دور کے نہیں ہیں ہم یاروں
بھول جاتے ہیں یہی ہم یاروں
اس دور کے لوگوں سے الجھ جانا
اپنے دور کے لوگوں جیسا سمجھنا
محبت مروت اب بھی ہیں مگر کم
اسی کے عادی ہیں یاروں مگر ہم
عمر کے اس حصے میں آکر یاروں
اپنے دور سے اس دور میں یاروں
جو سفر طے ہوا وہ ہوگیا ہے بس
فکر کرو اس کی جو رہ گیا ہے بس
ساتھ محبت اور عاجزی کے راہی
گزرے وہ زندگی جو بچی ہےاپنی