جنتی کوششیں کر سکتی تھی کر چکی ہوں
شاید میں ُاس سے اب ہار چکی ہوں
مجھے چھوڑ کر جو اک خواب کے پیچے بھاگ رہا ہے
میں ُاس کی خاطر اپنی ہر خوشی وار چکی ہوں
توڑ ہی دیا نہ تم میرا بھرم دیکھو
میں اب اپنے خوابوں کو مار چکی ہوں
مطلب کا ہے واسطہ تو تم نہیں تو اور سہی
میں خود کو سنا دل کی پکار چکی ہوں
کس قدر غرور تھا ُاسے اپنے ضبط پر
ُاس کے سامنے مرنے کا کر اصرار چکی ہوں
قسمت سے کھلا تھا وہ پھول اجڑے باغ میں
جیسے دے کر محبت کا اظہار کر چکی ہوں
جاؤ لیکن اب نہیں آنا تم میری طرف
اے راہے محبت تم پر چلنے سے انکار کر چکی ہوں