جنوں آسیب بن کر کھا گیا ہے
مرے وجدان کو ڈر کھا گیا ہے
روانی پانیوں کی کہہ رہی ہے
کئی صحرا سمندر کھا گیا ہے
مری ہستی مری سوچیں مرا دل
مرا سب کچھ مرا گھر کھا گیا ہے
لہُو روتے ہُوئے سورج کو دیکھا
مری آنکھیں وہ منظر کھا گیا ہے
سحر ہوتے ہی دیکھا آسماں کو
اجالا سارے اختر کھا گیا ہے
میں چُھونا چاہتی ہُوں آسماں کو
مگر پنجرہ مرے پر کھا گیا ہے
کوئی کائی کا مارا دفن ہو گا
کہ مرقد سنگِ مر مر کھا گیا ہے
نہ کر پائی مری تدبیر کچھ بھی
مجھے عاشی مقدر کھا گیا ہے