جو اپنی گلی سے بھی گزرنے نہیں دیتا
وہ دل میں کسی کو بھی اُترنے نہیں دیتا
کیوں یادوں میں اُلجھاۓ وہ رکھتا ہے ہمیشہ
مل جانے پہ دیدار جو کرنے نہیں دیتا
مقروض محض ایک نوالے کا جو کر لے
مفلس کو وہ زردار سنورنے نہیں دیتا
دن رات جگاتا ہے وہ خدام کی صورت
مفلس کو کبھی چین سے مرنے نہیں دیتا
سمجھو کے لہُو اُس کی رَگوں میں ہے یزیدی
پانی وہ جو دریا سے بھی بھرنے نہیں دیتا
مذہب ہے سدا میرا جو انساں سے بھلائی
خلوت میں یہ جذبہ مجھے ڈرنے نہیں دیتا
باقرؔ وہ جو خود جھوٹ کا پیکر ہے جہاں میں
محفل میں کسی کو بھی مکرنے نہیں دیتا