جو اپنے ہی اندر کسی الجھن میں گھرا ہو
کیا اسکو لگے شہر میں پھر جو بھی ہوا ہو
کچھ ایسے پلٹ آیا ہوں دہلیز وفا پہ
جیسے کسی زنجیر نے در کھینچ لیا ہو
کچھ ایسے وہ امید بھی دل بوس ہوئی ہے
بچہ ہو کوئی جیسے کہ اٹھتے ہی گرا ہو
حالات نے کچھ ہم سے آنا چھین لی ورنہ
مشکل تھا کہ حق اپنا بھی یوں مانگ لیا ہو
گھبرا کے میری آنکھوں کی حدت سے وہ سورج
روکو جو سمندر میں کہیں ڈوب چلا ہو
ہم کو تو یہاں حسن بھی نایاب لگا ہے
کچھ تم ہی بتاؤ جو کہیں عشق ملا ہو
ہم رستہ ہستی پہ وہ بل کھا کے گرے ہیں
اندھا کوئی ٹکرا کے جو پتھر سے گرا ہو
کچھ راتوں سے میں خواب برے دیکھ رہا ہوں
یہ گھر کسی اندھے کو نظر آ نہ گیا ہو
طے کرنے تھے وہ جسکو رضا نور کے رستے
وہ جسم کی دیوار سے ٹکرا نہ گیا ہو