جو پورے ہو بھی جائیں ایسے ارماں کم ہی ہوتے ہیں
وفا جو ہو سکیں وہ عہد و پیماں کم ہی ہوتے ہیں
ڈبو دی ہے مری کشتی مری ہستی کے طوفاں نے
کہ اِن لہروں کے دامن میں تو طوفاں کم ہی ہوتے ہیں
یہی بہتر تھا اُن کو یاد کچھ ہم ہی دِلا دیتے
کہ وہ اپنے کیۓ پہ خود پشیماں کم ہی ہوتے ہیں
یہاں ہونے کو ہو سکتا ہے کچھ بھی پھِر تعجب کیوں ؟
کِسی بھی بات پر اب ہم تو حیراں کم ہی ہوتے ہیں
تمنا ہر کویٔ رکھتا ہے اپنے دِل میں ساحل کی
ڈبو دیں اپنی کشتی ایسے ناداں کم ہی ہوتے ہیں
یہی اچھا ہے کہ تم روک دو اپنی تلاش عذرا
جہاں میں آدمی کافی ہیں اِنساں کم ہی ہوتے ہیں