جو کوئی ترا ظالم، جاں نثار ملتا ہے
بے قرار ملتا ہے، اشکبار ملتا ہے
وہ فضائے گلشن ہے، صرف خار کِھلتے ہیں
اِس لیے ہر اک غنچہ سوگوار ملتا ہے
منتشر ارادوں پر قوم جب چلے صاحب
جس طرف نظر ڈالو، انتشار مِلتا ہے
کیا وطن بنایا ہے مِل کے دوستو ہم نے!
ہر کسی کو مرنے کا اختیار مِلتا ہے
کس قدر صفائی سے کِھینچتے ہیں مِژگاں کو
تِیر جو بھی ملتا ہے، آر پار ملتا ہے