وہ میری ہستی بہ ہر طور مٹانا چاہے
بے کفن ہی نہیں ، بے گور بنانا چاہے
کھل کے تو دے نہیں سکتا مری باتوں کا جواب
چیخ چلا کے بس آواز دبانا چاہے
خوشیوں میں ہو نہیں سکتا وہ کسی کی بھی شریک
عیب سو ڈھونڈھ کے بس سوگ منانا چاہے
پرسش حال ، کبھی حال غم دل کہنے
دل تو بس آپ سے ملنے کا بہانہ چاہے
روٹھنے کے تو طریقے نیے ڈھونڈھے لیکن
ناز برداری کا انداز پرانا چاہے
تھک چکا ہوں میں بہت ، ڈال رہا ہوں ہتھ یار
جیسا اب آپ کہیں ، جیسا زمانہ چاہے
دوستی کیسے گوارہ کریں اس کی ، جو ‘ حسن ‘
کاٹ کر میرا گلا ، ہاتھ ملانا چاہے