جینے کی مشقت گاہ میں ہُوں، پابندِ سَلاسِلِ مجبوری
اِک پیاس نہ بجھنے والی ہے، اِک زہرِ ہَلاہِلِ مجبوری
جینے کے سودے نے ہم کو، کم از کم دو موتی تو دیے
اک آہ منافعِ حسرت کی ، اک نوحہ، حاصلِ مجبوری
یہ سوز لہُو میں کیونکر ہے، یہ جاں کی حرارت کیا شے ہے
اک آنچ ہے ہلکی ہلکی سی، اِک تاؤ شاملِ مجبوری
اک وہ ہیں جو ایک زمانے سے ساحل کے لیے سرگرداں ہیں
اک ہم ناشکرے ہیں جنکی قسمت میں ہے ساحلِ مجبوری
ہم سادہ لوح سہی لیکن، قسمت کی لوح تو سادہ نہیں
کندہ ہے جلی حرفوں میں وہاں تحریرِ منازلِ مجبوری
تُم سے کیسا اِخفائے غم، تُم سے کیسی پردہ داری
سینے میں چھپائے بیٹھی ہُوں درہائے منازلِ مجبوری
مت یاد دِلا، مت مجھ کو رُلا، مت درد بڑھا، مت حشر اُٹھا
اِس قیدِ صعوبت میں ہمدم مت چھیڑ مسائلِ مجبوری
جینا تو بہت مشکل ہے ہی، مرنا بھی نہیں آساں عاشی
جیتی نہیں بادلِ مختاری، مرتی نہیں بادلِ مجبوری