زیست ہوتی رہے دُشوار، ضروری تو نہیں
سچ کے حصے میں رہے دار، ضروری تو نہیں
ساری دُنیا کو مُحبت سے بنالو اپنا
فتح کے لئے یلغار، ضروری تو نہیں
یہ فقیری بھی بہت شان عطا کرتی ہے
ہاتھ ہوں درہم و دینار، ضروری تو نہیں
ہم سے لفظوں کی تجارت نہیں ہوپائی کبھی
ہم بھی ہوں شامل بازار، ضروری نہیں
غیرتمندوں کو تو الفاظ قتل کرتے ہیں
تھامئے ہاتھ میں تلوار، ضروری تو نہیں
بس یہی سوچ ہمیں دُور کیا کرتی ہے
حاکمِ وقت اور کِردار، ضروری تو نہیں
ہم نے مانا کہ نہیں ہوتا ہے ہر اِک مُخلص
اور ہر شخص ہو اداکار، ضروری تو نہیں
بے ہُنر ہو کے بھی یوں دستِ طلب بڑھتا ہے
جھولی خالی رہے ہر بار، ضروری تو نہیں
سرور ہر حال میں حق گوئی کو رکھئے گا شِعار
لوگ ہوں اِس میں مددگار، ضروری تو نہیں