حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا
میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا
سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
بچپن کے ساتھ ہو گئے بوڑھے تمام ذہن
ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ
باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا
ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر
جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا