حرص و طمع نے دل میں تو ظلمت بڑھا دیا
حق کے دخول پر بھی تو پہرا بٹھا دیا
دنیا کا تو نشہ جو کسی پر ہی چڑھ گیا
حق سے پھرا کبھی تو خزانہ دھنسا دیا
دنیا کے اے مسافر یہ تجھ کو خبر نہیں
جو بند ہوئیں آنکھیں حقیقت بتا دیا
ملتا نہیں ہے نام و نشاں جو تھے نامور
پورس ہو یا سکندر سب کو مٹا دیا
انجام دیکھا تو نے وہ تھے جو ہاتھی والے
توڑا غرور ان کا تو بھوسہ بنا دیا
انصاف کی ڈگر سے جو ہٹتا چلا گیا
ایسے ستمگروں کو ٹھکانے لگا دیا
کیا آرزو جہاں میں تو پوری کسی کی ہو
دنیا کی بے ثباتی نے ارماں بھلا دیا
کیا موت کا بھروسہ کہ پل میں کوئی گیا
اس فکر نے تو اثر کو بالکل ہلا دیا