حسد کی آگ ھر انسان کو جلا دیتی ھے
یہ نفرت کے شعلوں کو اور ھوا دیتی ھے
قسمت کے کھیلوں کو محنت سے بدلنے والو
یہ تو اونچی آنکھوں کو بھی نیچا ھی دکھا ددیتی ھے
لوگ کہتے ھیں کہ صبر کرو صبر کرو
جواں موت تو ھر چشم کو رلا دیتی ھے
آدمی عشق سے بیدار تو ھو جاتے ھیں
مگر پیار کی لوری پھر سےانہیں سلا دیتی ھے
وقت رخصت میں ھیں یہ چند لمحے باقی
عمر رفتہ کب سے یہ صدا دیتی ھے
زندگی کے غم و آلام سے گھبرانا کیسے
یہ تو ھمیں جینے کی صدا دیتی ھے
دوسروں کے دریدہ دامن میں نہ جھانکو اے حسن
یہ زلت تو انسان کو اپنی ھی نگاھوں میں گرا دیتی ھے