پہنچ میں جو نہ ہو اس کے لیے ترستا نہیں
یوں اپنے حال پہ روتا نہیں میں ہنستا نہیں
سنائی دیتی ہے اس کی گرج تو دور تلک
فقط گرجتا ہے بادل کہیں برستا نہیں
ترے اعمال کہ تو بند گلی میں جا پہنچا
کہیں سے بچ کے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں
یوں لگ رہا ہے کہ اس شہر سے خفا ہے بہار
حسین ہاتھوں میں پھولوں کا آج دستہ نہیں
اے نونہال وطن ! کیسی تیری محرومی
ہے عمر پڑھنے کی کاندھے پہ تیرے بستہ نہیں
خرابیاں ہیں اگرچہ وطن میں ہر جانب
ہوں فکر مند بہت پھر بھی دل شکستہ نہیں
محبتوں سے دلوں پر کرو گے راج سدا
جبر سے کوئی بھی زاہد دلوں میں بستا نہیں