حسیں چہرہ لگا ایسے ملائم شام جیسے
شفق بکھری ہوئی رخ پہ سلونا جام ہوجیسے
سمائی ہے میرے دل میں کہ دیپک راگ ہو جیسے
میری محبوب نلگتی ہے سلگتی آ گ ہو جیسے
لبوں کی بھیگتی کلیوں پہ جیسے اوس گرتی ہو
وہ گلشن آرزؤں کا میرا ہی بھاگ ہو جیسے
اسے مل کر اسے ہی دیکھنا اب کام ہو جیسے
شفق بکھری ہوئئ رخ پہ سلونا جام ہو جیسے
گری بجلی میرے دل پہ حسن دلدار کی جیسے
بدن کو آنچ آئی ہو لب و رخسار کی جیسے
نگاہوں میں نشے کا اک سمندر موجزن دیکھا
قیامت ڈھا گئی ہم پر جھلک دیدار کی جیسے
لچکتی گل بدن آئی ہو مہکتی شام ہو جیسے
شفق بکھری ہوئی رخ پہ سلونا جام ہو جیسے