تمہاری یادوں سے دل کو رہائی ہو نہیں پائی
پرائی ہو کے میں تم سے پرائی ہو نہیں پائی
تمہارے میرے درمیان صدیوں کی مسافت ہے
ہمارے درمیاں لیکن جدائی ہو نہیں پائی
سنا ہے چاہنے والوں کے دشمن ہیں جہاں والے
مگر دشمن میری ساری خدائی ہو نہیں پائی
سب کے واسطے میں نے ہمیشہ سے بھلا سوچا
فقط اپنے لئے مجھ سے بھلائی ہو نہیں پائی
مجھے اچھا نہیں کہتا بھلے سے نہ کہے کوئی
کسی کی میرے دل سے پر برائی ہو نہیں پائی
ستم میں نے جہاں والو! اٹھائے ہیں کئی لیکن
نہیں تھا حوصلہ مجھ میں دہائی ہو نہیں پائی
حدوں سے پار کی دنیائیں ہم بھی دیکھتے عظمٰی
حصارِ ذات سے لیکن رہائی ہو نہیں پائی