حصارِ ذات سے نکلے تو کچھ نظر آئے
نگاہِ شوق سے دیکھے تو کچھ نظر آئے
انا کی آگ میں جل کر دور ہے مجھ سے
وہ میرے پاس سے گزرے تو کچھ نظر آئے
وہ میرے عشق و جنوں کو رسمی کہنے والا
میرے دل میں کبھی اُترے تو کچھ نظر آئے
دل میرا خود سے ہی بیگانہ ہوا جاتا ہے
وہ بھی یونہی مجھے چاہے تو کچھ نظر آئے
فقط الفت کا واویلہ ہی کئے جانا کیوں
وہ تقاضے بھی نباہے تو کچھ نظر آئے
اپنی داستانِ غم سنا کر وہ اک لمحہ کبھی
حال میرا بھی پوچھے تو کچھ نظر آئے
مطمٔن ہے میرے چہرے کے تبسم سے جو
نگاہِ سوز میں بھی جھانکے تو کچھ نظر آئے
خلش دل میں جو بھی ہے بیاں کر دے
بھید اپنا بھی وہ کھولے تو کچھ نظر آئے
تیرے وصل کی حسرت سے رضا دل
کچھ دیر کو ہی سنبھلے تو کچھ نظر آئے