بےثمر اجڑا شجر لگتا ہے
مجھے رسوائی سے ڈر لگتا ہے
خواہشات کی تکمیل ہوتی نہیں
آدمی کا منہ کھلی قبر لگتا ہے
مدہوش رہے جو ہر وقت
ایسا آدمی بے خبر لگتا ہے
قیام نہیں کوئی بھی منزل تک
زندگی اک ایسا سفر لگتا ہے
کبھی نہ دیکھوں گا اٹھا کے آنکھ
آپ کو برا یہ اگر لگتا ہے
ہم فقیر تو ہیں بے مکاں عاجز
جہاں رکے وہی اپنا گھر لگتا ہے