منزل کے آس پاس دھواں دیکھ رہا ہوں
صدیوں کی مسافت کو زیاں دیکھ رہا ہوں
کھویا ہواہوں عالم بے اعتبار میں
ناداں ہوں حقیقت میں گماں دیکھ رہا ہوں
سینے میں چبھ رہی ہیں وہ ماضی کی کرچیاں
ٹوٹا ہوا شیشے کا مکاں دیکھ رہا ہوں
سربستہ راز کھول رہا ہے فشار خون
اک یاد کو رگ رگ میں رواں دیکھ رہا ہوں
کچھ واسطہ نہیں مجھے کوئے رقیب سے
میں حسن کے قدموں کے نشاں دیکھ رہا ہوں