حق کو باطل نہ پکارا جائے
یہ ظلم نہ اب ہم پہ گزارا جائے
الفت دنیا کی بات نہ کر
ظلمت شب میں بھی سکوں پایا جائے
حلقہ یاراں کی کیا تمنا کروں
رقیبوں میں بھی وقت بیتایا جائے
یہ تو صرف من کی بات نہیں
صورت کو بھی تو نکھارا جائے
جس سے بیدار ہو انسان ضمیر
ایسی زنجیر کو بھی تو ہلایا جائے
ستاروں پہ کیا کمند رکھنا
خاک کو بھی تو سر پہ اٹھایا جائے
گہر کا پتہ اگر لگانا ہے سمیعہ
پتھر کو بھی پھر تراشا جائے