حُسنِ وفا سے نظریں ہٹا ہی نہ پائے ہم
ان کی نظر سے یہ بچا ہی نہ پائے ہم
مدت کے بعد آپ کا کیا خط ہمیں ملا
تحریر سے نگائیں ہٹا ہی نہ پائے ہم
خونِ جگر جلا کے بھی جلتے رہے مگر
آنکھوں کے یہ ثراغ بجھا ہی نہ پائے ہم
آنکھوں نے تجھ کو کھودیا کوشیش کے باوجود
تصویر تیری دل پہ بنا ہی نہ پائے ہم
بر باد کر کے رکھ گئے ہو زندگی مری
آگے تمہارے عشق کے جا ہی نہ پائے ہم
سنتے رہے ہیں ان کی ہی رودادِ زندگی
اپنا تو ھال وشمہ سنا ہی نہ پائے ہم