الجھنیں تو ہوتی ہیں
مشکلیں تو ہوتی ہیں
زندگی کی راہوں میں
دقتیں تو ہوتی ہیں
زندگی تو چلتی ہے
زندگی تو پھر بھی ہے
جب تلک بھی زندہ ہیں
وقت ہی مقدر ہے
زندگی تو تنکا ہے
وقت ایک سمندر ہے
اس سے تم نہین ڈرتے
بھاگ بھی نہیں سکتے
یہ تو رسن ہستی کے
ریشہ ہائے بستہ ہیں
یہ شعور انفس کے
جان من ! رگ جاں ہیں
سانس کا یہی رشتہ
ذات کا یہی رستہ
کرب جاں کا باعث ہے
اس وجودِ منزل کا
یہ تو ایک حصہ ہے
وقت کے اشارے پر
زندگی بدلتی ہے
وقت کے سہارے پر
عمر سانس لیتی ہے
وقت ہی کے دھارے پر
ہر نظیر بہتی ہے
وقت سیل بےپایاں
زندگی مشقت ہے
وقت قہر بے درماں
زندگی اذیت ہے
زندگی، بلاد جاں
دائرہ مشیت کا
زندگی کا ہر رستہ
موت ہی کو جاتا ہے
پھول کھل کے جھڑتے ہیں
لوگ جی کے مرتے ہیں
کوزہ ہائے گل جیسے
خاک سے اترتے ہیں
آگ سے گزرتے ہیں
کشمکش کی دنیا میں
بچ بچا کے رہتے ہیں
اور پھر کسی ہاتھوں
گر کے ٹوٹ جاتے ہیں
ان سے میں نہیں ڈرتا
یہ تو ایک حصہ ہیں
اس وجودِ منزل کا
تو نے کیا نہیں دیکھا
تو نے کیا نہیں سوچا
وقت کے ترازو پر
ہر وجود تلتا ہے
وقت سیل بےپایاں
بے کرانہ بے ساحل
ازل ایک دھماکہ تھا
ابد بازگشت اس کی
زندگی ! بلاد جاں
دائرہ مشیت کا
آج اے مہ تاباں
تو نگاہ جنت ہے
کل کو حسن مہتابی
ایک مشت کالستر
یہ حیات حاصل ہے
یہ ہماری منزل ہے