خاک کا پتلا تھا جس کو مہر آسا کر دیا
داد دیجے ہم نے اک ذرے کو کیا کیا کر دیا
پھر نئے جلوؤں سے اس بت کو خود آرا کر دیا
تابش عشق و وفا نے کیا کرشمہ کر دیا
داغ سینے پر تو زخم اک دل میں پیدا کر دیا
کام قاتل کا جہاں میں تو نے گویا کر دیا
چشم جاناں ! تیری اس طرز مسیحائی کی خیر
غمزدوں کے ہر مرض کو تو نے اچھا کر دیا
شام فرقت ہے، مری بے تابیاں ہیں اور میں
شوق نے اس کے سر بازار رسوا کر دیا
اٹھ کے محفل سے تری ، جائے کہاں دل باختہ
تو نے اس کو اور بھی کچھ نا شکیبا کر دیا
صبر کا یارا ہو کیونکر، اس کا میں مبعود ہوں
حسن و رعنائی سے جس نے حشر برپا کر دیا
ڈس لیا خود مجھ کو میرے جذبہ اخلاص نے
ہائے اس دل نے بھری دنیا میں تنہا کر دیا
کیا خبر شیخ حرم نے کیا کہا ہے کان میں ؟
آج ساقی نے مجھے محفل سے چلتا، کر دیا
جہل طینت چڑھ گیا جب مسند ارشاد پر
علم و عرفان و تصوف اس نے رسوا کر دیا
کا ہے مجھ کو لا کے دنیا کی اندھیری رات میں ؟
بخت نے وقف ستم ہائے احبا کر دیا
گردش دوراں کی زد میں، وہ بشر آ کے رہا
راز دل جس نے کہ محفل میں ہویدا کر دیا
ہو گئی رسوا جہاں میں وضع خود داری مری
کج ادائی نے تری خون تمنا کر دیا
مرگ زینہ تھی وصال دوست کا ، کر کے علاج
ظلم کتنا تو نے مجھ پر اے مسیحا ! کر دیا
میکدے کی رونقیں کیں آکے رومی نے بحال
اس نے زندہ کاروبار جام و مینا کر دیا