حرفِ انکار و اقرار بدل جاتے ہیں
دھن کی خاطر کئی پندار بدل جاتے ہیں
جنسِ مجبور تو بازار ہی میں رہتی ہے
ہاں فقط روز خریدار بدل جاتے ہیں
حُسنِ یوسُف اگر بے پردہ نظر آتا ہے
شربتِ دید سے بیمار بدل جاتے ہیں
ترکِ اُلفت کی قسم روز نئی کھاتے ہیں
دیکھ کر اُس کو، ہر اِک بار بدل جاتے ہیں
اہلِ منصب کے قصائد، بعد منصب ہے ہجو
آہ کس درجہ یاں اُفکار بدل جاتے ہیں
صرف اِک حال بدلنے سے بدلتا ہے جہاں
مُفلسی آنے سے سب یار بدل جاتے ہیں
وقت ہر ایک کو بے طرح بدل دیتا ہے
خوفِ طوفان سے پتوار بدل جاتے ہیں
مرگ کا خوف بدلتا نہیں دیوانوں کو
ورنہ سب لوگ سوئے دار بدل جاتے ہیں
فصل نفرت کی نہ گھر میں کبھی اُگنے دینا
کیونکہ اس فصل سے گھر بار بدل جاتے ہیں
قصہء کرب و بلا نے کیا واضح سب پر
ظلم بڑھتا ہے جب انصار بدل جاتے ہیں
سِیم و زر دے نہیں سکتے ہیں کسی کو خوشیاں
دولت ملتی ہے تو آزار بدل جاتے ہیں
تھا سمجھتا کہ میرے ساتھ ہیں ہمدرد بہت
جب نہ جانا تھا اداکار بدل جاتے ہیں
لفظ توقیر سے عاری نہ ہوں کیونکر سرور
خبر جھوٹی ہو تو اخبار بدل جاتے ہیں